Education posted on 12/12/2020 3:02:04 PM by Sana , Likes: , Comments: 0, Views: 684
عورت
ازقلم فاریہ علی
ایم سوری ہم آپ کی بیوی کو نہیں بچا سکے مگر آپ کو مبارک ہو آپ کے ہاں بیٹی ہوئی ہے بیٹی بیٹی کا سن کر وہ کچھ اس انداز میں بولا کہ بیٹی ہونا جرم ہو اتنے میں پیچھے سے آواز آئی آئے ہائے آتے ہی ماں کو نگل گئی اللہ جانے آگے کیا کیا نقصان کرے گی بوڑھی سی آواز مگر الفاظ ایسے کوئی بھی سن کر حیران رہ جائیں گے خود تو مر گئی اور ہمارے حوالے ایک اور مصیبت کر گئی وہ عورت شاید یہ بھول گئی تھی کہ وہ خود بھی عورت ہے اور جس نے اسے پیدا کیا وہ بھی عورت تھی اماں چپ ہو جاؤ اور گھر چلو آج اس کی ماں کو مرے پورے پندرہ دن ہو گئے تھے مگر میں ایسا سماء تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں مگر کسی کو کیا خبر تھی کہ بچی کا تو کچھ بچا ہی نہیں جب عورتیں بچی کو دیکھتی تو طرح طرح کی باتیں کرتی آج ایسے ہی بات سامنےکھڑی ہوئی عورت کر رہی تھی بچی کو دیکھ اتے ہی ماں کو کھا گئی دادی بیمار ہوگئی بہن اس گھر کا سکون برباد ہو گیاماں کو کھا گئے لوگ ایسے بولتے جیسے زندگی اور موت اولاد یعنی اگر میں سخت الفاظ استعمال کروں تو بیٹی کے ہاتھ میں ہے جب کہ یہ چیز تو ہمارے اللہ کے اختیار میں ہے مگر اگر میں اس حساب سے ہمارے معاشرے کی حقیقتیں لکھوں بیٹی کے متعلق تو شاید یہ صحفے سیاہی ختم ہو جائے اور لوگ مجھ سے حقیقتا نفرت کرے مگر یہ بھی سچ ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں نہ کہ اولاد خاص کر بیٹی کے ہاتھ میں ہم بیٹیاں اگرآسمان میں اڑنے کے خواب کے خواب دیکھ بھی لے تو ریتی رواجوں کی چادر اڑا کر کونے میں سجا دیا جاتا ہے ایک اور حقیقت بھی ہے جسے ہم سب عورتوں کو اور بیٹیوں کو سمجھنا اور تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک عورت شوہر بیٹا بھائی باپ کے بغیر نہیں چل سکتی ہم بیٹیوں کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہماری عزت بھی ہمارے ساتھ لگنے والے نام کی وجہ سے ہوتی ہے پھر چاہے وہ نام باپ کا ہو یا شوہر کا ہم بھائی کا مان باپ اور شوہر کی عزت اور بیٹے بیٹی کی جنت ہوتی ہیں ہمیں معاشرے میں سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کر چلنا چاہیے ہمارے معاشرے کے لوگ عزت کے کس دہانے پر کھڑے ہیں شاید یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں موٹروے پہ عورت پر کیا گزری مجھے یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے وہ ہمارا معاشرہ خوب جانتا ہے اور آپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں |
مزید فاریہ علی کے افسانے:افسوس
تعارف : فاریہ علی سفر زندگی آسان نہیں ہے لوگوں کے دیے ہوئے دکھ درد تکلیف حد سے تجاوز کر جائے تو انوکھی صورت اختیار کر جاتے ہیں اور پھر اختیار آپ کے پاس ہیں اس کو طاقت بنا لیں اور پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر لوگوں کے سامنے امٹ کرائیں یا پھر آپ ہتھیار ڈال دے زندگی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں میرا نام فاریہ علی ہے 2002میں سیال راجپوت گھرانے میں آنکھ کھولی قدر مطلق کا احسان کے اسلامی گھر آنے میں اس روح ازل کو بھیجا لکھنے کا شوق تو شروع سے ہی تھا کچھ کرم اپنوں نے اور لوگوں نے کیا کہ اس نے باقاعدگی سے ایک صورت اختیار کرلی 2017 سے لکھنے کا آغاز کیا بس صحیح انسان کی تلاش تھی جو میرے ہنر کو پہچان کر اس چیز کو عملی جامہ پہنائے. |