تاریخ شائع 18-02-2022, تصنیف کردہ : آنسہ اعوان (Ansa44)
درجہ بندی:
افسانہ: مہرو
آنسہ اعوان
دعا کے بعد منہ پر آمین کے انداز میں ہاتھ پھیر کر وہ اٹھی اور جاۓ نماز کو تہہ لگا کر میز پر رکھا۔۔۔ چہرے کے گرد موجود دوپٹہ جو حجاب کی طرح کسا ہوا تھا اسے کھولا اور کیچر میں مقید بالوں کو عادتاً کھول کر دوبارہ سے انہیں کیچر میں جکڑے وہ بیڈ پر آ کر بیٹھی تھی۔۔ اپنے اوپر لحاف لپیٹے وہ آرام دہ انداز میں نیم دراز ہوئی اور پاس پڑا
موبائل اٹھایا۔۔''آج تو میں یہ لیول کر کے رہوں گی،
دو دنوں سے ہو کے نہیں دے رہا"
اپنی مخصوص گیم کھول کر وہ خود میں بڑبڑائی تھی۔۔
وہ کھیلنے ہی لگی جب موبائل واٹس ایپ پر آۓ نئے پیغام کے ساتھ بجا تھا۔
اس نے ہمیشہ کی طرح جھنجھلاتے ہوۓ واٹس ایپ کھولی تھی کیونکہ وہ اکثر جب گیم کھیل رہی ہوتی یا کوئی ڈرامہ دیکھ رہی ہوتی تو واٹس ایپ کے نوٹیفکیشن اسے بہت تنگ کرتے تھے اس لیے اس نے واٹس ایپ پر موجود تمام گروپس کو میوٹ کیا ہوا تھا کیونکہ اس کے فرینڈز اور فیملی گروپ میں سارا دن میسج آتےرہتے اور وہ سوچتی کہ اللہ کی اس مخلوق کو اور کوئی کام نہیں ہے " دراصل وہ خود کو بہت ہی مصروف انسان کے لقب سے جو نوازتی تھی ٰٰٰٰ ٰ
اور ان گروپس میں عوام سارا سارا دن "مہرو" کو مینشن کر کے بلاتے رہتے ۔۔۔ جی جی وہی مہرو جو خود کو بہت مصروف خیال کرتی ہیں۔ لیکن مہرو کے سر پہ جوں تک نہ رینگتی۔
ابھی بھی مہرو نے اسی خیال میں واٹس ایپ کھولی کہ آۓ پیغام کو جواب کی سند دے کر بھیجنے والے پر احسانِ عظیم کرے لیکن سامنے لکھے نمبر کو دیکھ کر وہ ایک دم ساکت ہوئی تھی۔۔۔ ایک نئے نمبر سے آیا پیغام سامنے جگمگا رہا تھا لیکن مہرو اس پیغام کو نہیں بلکہ اس نمبر کو دیکھ کر ٹھہر گئی تھی۔۔ اس نمبر کو تو وہ ہزاروں میں پہچان سکتی تھی ۔۔۔۔ وہ نمبر جس کو اس نے ایک عرصے تک یاد رکھا تھا کہ اسے اپنے گھر کے نمبر یاد نہیں رہتے تھے لیکن یہ نمبر کبھی ذہن سے محو نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔ اب ایک عرصہ بیت چکا لیکن آج بھی یہ نمبر اسے یاد تھا۔۔"جیسے کچھ لوگ آپ کے دل پر اپنے نقش چھوڑ جاتے ہیں ویسے ہی کچھ نمبرز بھی اپنی ایک الگ کہانی رقم کر جاتے ہیں"
اس نمبر سے اسے بارہا پیغام آ چکے تھے ماہ میں ایک دفعہ ضرور ۔۔۔ اور آج بھی بھیجنے والے کو شاہد اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک ماہ بیت چکا اب پھر سے بات کرنے کا عندیہ بھیجا جاۓ۔۔۔
مہرو کچھ دیر ٹھہر کر اس نمبر اور پیغام کو دیکھتی رہی پھر آنکھیں زور سے میچ کر وہ کراہی تھی "آہ ناٹ آگین" کہتے ہی اس نے چیٹ کھولی۔۔ مہروعظیم کیسی ہیں آپ؟ ہمیشہ کی طرح ایک جیسا سوال۔۔۔ مہرو نے پڑھا کچھ دیر سوچا بہت اچھی ہوں اور آپ کے میسج سے اچھی خاصی ڈسٹرب بھی ہوئی ہوں۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی وہ اس شخص سے بات کرتے اپنی کڑواہٹ کو چھپا نہیں پاتی تھی وہ شخص جو کبھی خوشی کی واحد وجہ ہوا کرتا تھا ۔۔ جس کے لیے مہرو عظیم نے بہت خواب سجائے تھے ۔۔ ایک وقت تھا اسکی محبت کا اتنا چرچا تھا کہ سکول اور کالج کی ہر دوست کو یہ بات معلوم تھی۔۔۔ لیکن وہ بھی وقت تھا جسے گزرے سالوں بیت گئے تھے اور اب اسے بھی اس شخص سے دی گئی تکلیف سے گزرے اور تکلیف سے نکلتے ایک عرصہ بیت چکا تھا۔۔۔
معافی چاہتا ہوں آپ میری وجہ سے ڈسٹرب ہوئی۔۔۔ فوراً سے پہلے نیا پیغام جگمگایا تھا۔۔۔جسے پڑھ کر ہمیشہ کی طرح مہرو سوچ میں پڑ گئی تھی ۔۔۔ یہ عاجزانہ انداز کہاں سے چرا لیا ہے موصوف نے۔ یہ تو وہ شخص تھا جس کے ہر ہر انداز میں غرور چھلکتا تھا۔۔ یہ وہی شخص تھا جس نے مہرو جیسی مضبوط لڑکی کو رلایا تھا ۔۔ یہ وہی شخص تھا جس نے مہرو کی محبت کو اس کےلیے اذیت کا سبب بنایا تھا۔۔
اب یہ انداز یہ نرم سا لہجہ ؟؟؟ ماضی ایک فلم کی طرح ذہن کے پردےپہ ابھر رہا تھا۔۔مہرو نے سر جھٹکا۔۔۔گئے وقت کے ساتھ شاہد انسان بھی بدل جاتا ہے ۔۔ جیسے ایک خول میں رہ رہ کر وہ اکتا جائے اور اس خول کو اتار کر پھینک دے اور نیا خول چڑھا لے۔۔۔
اپنے خیال کو جھٹک کر اس نے اپنی توجہ واپس موبائل پہ دلائی
آپ ہر ماہ مجھے مسیج کیوں کرتے ہیں؟ آخر کرتے کیا ہیں آپ؟ مہرو نے لکھ کر بھیجا جواب فوراً ایا "آپ کی تلاش" مہرو نے بھی جھٹ پوچھا "پھر تلاش ختم ہوئی؟" اور واٹس ایپ آف کر دی ۔۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی جواب فوراً آئے گا اور وہ فوراً سے میسج سین کرے ۔۔۔ اوں ہوں۔۔۔ ایسا تاثر کیوں دوں میں کہ میں اسی کی چیٹ کھول کر بیٹھی ہوں۔۔ ہونہہ۔۔ خود ہی خود میں بڑبڑاتی وہ انسٹاگرام کھول کر اسکرول کرتی رہی۔۔۔ جواب آ چکا تھا لیکن وہ جان بوجھ کر دیر سے ریپلائی دینا چاہتی تھی۔۔
تھوڑی دیر بعد دوبارہ چیٹ اوپن کی ۔۔۔ "اگر آپ برا نہ مانو تو ایک بات کہوں؟ میسج سامنے لکھا موجود تھا۔۔ مہرو کے سوال کو یکسر نظر انداز کیا گیا تھا۔۔۔
جی کہیے۔۔۔
کیا میں کال کر سکتا ہوں؟۔۔۔ اور مہرو کو اسی بات سے چڑ تھی۔۔۔ کال پر بات کرنا تو اسے مصیبت معلوم ہوتی تھی۔۔۔ اس لیے جب کبھی اس کے فون پر خاندان کے کسی فرد کی کال آتی یا تو وہ بہن کو یا ماما کو پکڑا دیتی یا پھر جان بوجھ کر موبائل ہی سائلنٹ کر دیتی کی کال کرنے والا خود کی جواب نہ پاکر خاموش ہو جائے گا۔۔
ابھی بھی وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی لیکن پھر کچھ سوچ کر اوکے بول دیا۔۔۔ اچھا ہے آج جان چھوٹ جائے گی ہر ماہ نئے سرے سے بحث تو نہیں کرنی پڑے گی۔
نو سال بیت چکے ۔۔۔ شروع کے کچھ سال مہرو عظیم اس شخص کے پیچھے بھاگی اور اب تین سالوں سے وہ شخص مہرو کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔۔ مہرو جانتی تھی یہ کوشش کچھ عرصہ ہی رہے گی کیونکہ مرد میں نہ عورت جتنا حوصلہ ہے نا ہمت اور نہ ہی وہ عورت کی طرح صبر کے ساتھ انتظار کر سکتا ہے۔۔
کتنا بھاگی تھی نہ وہ اس کے پیچھے ۔۔۔ لیکن اپنی حد سے پھر بھی کبھی آگے نہ بڑھی تھی۔۔ ایک حد میں رہ کر اس نے اُس شخص کو بےحد چاہا تھا ۔۔ دعاؤں میں مانگا تھا۔۔۔ لیکن وہ جو دعاؤں میں تھا کب دعاؤں سے نکلنے لگا محسوس ہی نہیں ہوا۔۔۔ اور اب جب وہ واپس آیا تو مہرو نے سوچ لیا تھا وہ خود کو کمزور نہیں کرے گی۔۔۔ محبوب کی طرف سے ملنے والی توجہ سے وہ نرم نہیں پڑے گی وہ اب نہیں بہکے گی۔۔ کیونکہ وہ یہ بات جانتی تھی کہ حالات کی تبدیلی کسی سے محبت کا باعث نہین بن سکتی وہ پچھتاوا ہوتا ہے جو واپس لے آتا ہے۔۔۔شاہزیب کو بھی پچھتاوے نے گھیر رکھا تھا۔ "مستقبل میں پچھتاوا اسی محبوب کو ہوتا ہے جس کے پیچھے کوشش ذیادہ ہوتی ہے" وہ جانتی تھی کہ اس شخص کو مہرو عظیم کی محبت کی قدر اب بھی نہیں ہے صرف ضرورت ہے ۔۔ " انسان کو جب ان لوگوں سے توجہ نہیں ملتی جن کو وہ چاہتے ہیں تو پھر وہ بھاگتے ہیں ان لوگوں کی طرف جو انہیں چاہتے ہیں، مقصد صرف ضرورت ہے،وہاں سے نہ ملی تو یہاں سہی"۔۔۔ قدر کون کرتا ہے۔۔؟؟
سوچتے سوچتے وہ کتنی دور نکل آئی احساس نہیں ہوا۔۔۔ واپس حال میں تب آئی جب ہاتھ میں پکڑا موبائل زور سے بجا تھا۔۔۔
مہرو نے کچھ دیر ٹھہر کر موبائل کان سے لگایا۔۔
السلام و علیکم۔۔۔ شائستہ لہجے میں سلام کیا گیا جس کا جواب مہرو نے بے تاثر چہرے سے دیا۔۔۔ اب کڑوے یا شائستہ لہجے اس پر اثر نہیں کرتے تھے۔۔
مہرو عظیم آپ اتنا ایٹی ٹیوڈ سنبھال کیسے لیتی ہیں۔۔ کچھ لمحے گزرے جب موبائل سے اس کی آواز ابھری تھی۔۔۔
کیوں کیا ایٹی ٹیوڈ ہونا بری بات ہوتی ہے شاہزیب زمان؟ مہرو نے بھی اسی کے انداز میں جھٹ سے کہا ۔۔۔
نہیں بلکل بھی نہیں۔۔ آپ میں تو کوئی بات بھی بری نہیں ہے مہرو۔ اور مہرو آخری دفعہ جب ہم نے بات کی تب بھی میں نے ایکسکیوز کیا تھا ہر بار کرتا رہا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں میری ہر بات ہرٹ کرنے والی تھی۔۔ آج بھی وہی کہناچاہتا ہوں۔۔
اور میں نے آخری دفعہ کیا کہا تھا؟۔۔ مہرو نے پوچھا۔۔
یہی کہ آپ میری وجہ سے بہت ڈسٹرب رہی ہیں اور اب پھر سے نہیں ہونا چاہتی اور یہ کہ آپ اب آگے بڑھ چکی ہیں اور مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ شاہزیب نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے رٹے رٹاۓ طوطے کی طرح کہا۔۔
اس کے اس انداز پر مہرو کے لب مسکراہٹ میں ڈھلےتھے۔۔۔ کتنا ڈرامے باز ہے نہ یہ شخص بھی ۔۔
اگر میں نے آپ سے بات کرنے سے انکار کیا تو اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ میں نے اپکا معافی نامہ بھی نہیں قبول کیا۔۔
یہ تو مجھے پتا ہے کہ آپ نے میری معافی قبول نہیں کی۔۔۔ مہرو کی بات پر وہ بے چینی سے بولا تھا۔۔
اور آپ سے ایسا کس نے کہا؟
آپکی باتوں سے لگا۔۔
میں تو ایسی باتیں ہی کرتی ہوں۔۔
نہیں تو مہرو۔۔ آپ کیسی باتیں کرتی ہیں مجھے تھوڑا سا اندازہ تو ہے۔۔
انسان ہمیشہ ایک سا تو نہیں رہتا۔۔ مہرو کے لہجے میں اداسی چھلکی تھی۔۔
لیکن آپ وہ واحد انسان ہیں جو بالکل بھی نہیں بدلے۔۔۔ آپ آج بھی صرف اپنا سوچ رہے ہیں آپ کےلیے میری فیلنگزہمیشہ کی طرح مزاق تھیں۔۔۔ مہرو ایک دم بول اٹھی تھی۔۔
ایسا نہیں کہو آپ پلیز۔۔۔میرے لیے آپ کی فیلنگز کبھی بھی مزاق نہیں تھیں ۔۔ وہ ہمیشہ سے خاص تھیں میرے لیے۔۔۔ "آپ کا کیا رشتہ تھا مجھ سے وہ کچھ خاص تو نہیں لیکن عام بھی نہیں ہے" شاہزیب گویا تڑپ اٹھا تھا
واہ کیا لائن بولی ہے۔۔۔ مہرو نے بظاہر بے تاثر چہرے کے لیکن محظوظ ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔
دوسری طرف شاہزیب نے کچھ دیر چپ سادھ رکھی پھر وہ بولا ۔۔
مہرو ایک بات کہوں ؟آپ کو ہر چہرے میں یاد رکھتا ہوں اور یہی سچ ہے۔۔
یہ بھی ۔۔۔۔اچھی۔۔ لائن تھی۔۔۔مہرو نے ٹھنڈے تاثر کے ساتھ رک رک کر کہا۔۔
آپ کو پتا ہے مہرو کہ آپ کو طنز کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔۔اس کی بات پر مہرو چونکی ۔۔۔ چلو اور تو کچھ نہی ملا اس شخص سے لیکن طنز کرنے کی عادت اسی شخص سے ملی ہے۔۔ ماضی کی ایک یاد نے پھر سے حال میں رکاوٹ ڈالی ۔۔شاہزیب بھی تو کبھی یوں ہی طنز کیا کرتا تھا۔۔ تب وہ بہت ہرٹ ہو جاتی تھی۔۔ سر جھٹک کر اس نے ماضی کی یاد کو واپس دھکیلا اور غور سے شاہزیب کی بات سننے لگی جو فون کی دوسری جانب بول رہا تھا۔۔
ویسے یہ بھی اچھی چیز ہے ۔ ہنر ہے۔۔ اپنی ناراضگی کا اظہار ایک مزاح میں کر دینا جس سے ماحول خراب نہ ہو انسان غصہ بھی نہ ہو اور سامنے والا سمجھ بھی جائے اگر وہ سمجھدار ہو تو۔۔
پھر آپ کیوں نہیں سمجھ رہے؟ کیا مجھے یہ سوچنا چاہیے کہ آپ سمجھدار نہیں۔۔۔ ؟ مہرو نے اس کی بات سمجھتے ہوا کہا۔۔۔
میں سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔۔۔
آپ چاہتے کیا ہیں یہ بتا دیں۔۔۔ مہرو نے آخر کار بات ختم کرنے کا سوچا۔۔۔ وہ کیوں اتنی دیر اس شخص سے بات کرے ۔۔۔
کیا میرے بار بار واپس آنے سے آپ کو اندازہ نہیں ہوا مہرو کہ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔ شاہزیب کے لہجے میں چھپی ہوئی التجا تھی۔۔
لیکن میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔ آپ جو چاہتے ہیں ویسا ہو ہی نہیں سکتا ۔۔ میں اب ایسا سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔۔ میں نہیں جانتی کہ آپ کو میرے پاس آپ کا پچھتاوا لے کر آیا ہے یا کیا لیکن میں اب کچھ بھی پہلے کی طرح نہیں چاہتی ۔۔۔ آپ اور میں دونوں بہت مختلف انسان ہیں۔۔۔ میں کبھی اس بات کو نہیں سمجھ پائی تھی لیکن اب اچھے سے سمجھتی ہوں۔۔۔ اس لیے جو آپ چاہتے ہیں وہ ممکن نہیں شاہزیب۔
مہرو روانی میں بولتی گئی تھی
لیکن مہرو کیا انسان کو ایک موقع نہیں دینا چاہیے؟
میں نے آپ کو ایک نہیں دس موقعے دیے تھے پچھے سات سالوں میں۔آپ کو تو اچھی طرح یاد ہو گا نہ کہ آپ نے کب کب اور کہا ں کہاں مجھے ذلیل کیا؟
مہرو کی بات پر فون کی دوسری طرف شاہزیب کو ایک دم چپ لگی تھی۔۔
بس بہت ہوا شاہزیب اب اور نہیں ۔۔۔ آپ کو سمجھ جانا چاہیے اب۔۔۔ میں آگے بڑھ چکی ہوں ۔۔ آپ بھی بڑھنا چاہتے ہیں لیکن ایک پچھتاوا ہے شاہد جو آپ کو روکے ہوا ہے میں نے آپ کو معاف کیا مت رکھیں اپنے ساتھ کوئی بھی گلٹ۔۔ کیونکہ اس گلٹ میں آپ جتنا میرے قریب ہونا چاہیں گے میں اتنا ہی دور ہوتی جاؤں گی۔۔۔ امید ہے اب آپ سمجھداری کا مظاہرہ کریں گے۔۔۔ اللہ حافظ
کال بند کرتے ہوئے مہرو نے گہری گہری سانس لی تھی۔۔۔ اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔ یوں جیسے شور مچا رہا ہوں کہ نہیں ایسے مت کرو ۔۔۔ اسے یوں مت جانے دو۔۔ اس کے رابطے ہمیشہ کےلیے ختم مت کرو۔۔ کبھی کبھی سہی ۔۔وہ آ تو آ جاتا ہے۔۔ بات کرتا یے ۔۔ آس پاس رہتا ہے۔۔ اسے مت جانے دو۔۔ روک لو۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے۔۔ لیکن اس نے دل کی آواز کو زور سے دبایا اور اسے واٹس ایپ پر بلاک کر دیا تھا۔۔ سم سے وہ پہلے بھی بلاکڈ تھا۔۔۔ گویا اب بس ۔۔۔ ہر رابطہ ختم۔۔ اب کوئی التجا نہیں ہو گی۔۔۔ کوئی بے چینی نہیں ہو گی۔۔۔
وہ موبائل سینے سے لگائے گہرے گہرے سانس لیے جا رہی تھی۔۔
کچھ محبتیں ہوتی ہیں جو بے سکون کرتی ہیں ۔۔شاہزیب کی محبت نے اسے بھی بہت سالوں سے بے چین رکھا تھا۔۔ اب تین سالوں میں وہ خوش تھی مطمئن تھی ۔۔وہ دوبارہ سے اپنا سکون گنوانا نہیں چاہتی تھی۔۔
مہرو کی آنکھوں میں نمی واضح چمکی جسے اس نے پلکیں جھپک جھپک کر خشک کرنے کی کوشش کی اور اپنی گیم پھر سے کھول لی۔۔لیکن ذہن میں اب بھی وہ سب چل رہا تھا
اس رات جب شاہزیب نے مہرو کی انسلٹ کر کے اسکے منہ پہ کال بند کی تب وہ رو رہی تھی اور پھر وہ روتی رہی تھی۔۔ اذیت سی محسوس ہوتی تھی تب اور یہ وہی لمحہ تھا جب اس نے فیصلہ کیا تھا کہ بس اب اور نہیں۔۔ تب اس نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ نہیں بھاگے گی اس کے پیچھے ۔۔ اللہ میں نے چھوڑ دیا ہے اسے۔۔ صرف سکون کےلیے اللہ۔۔۔ مجھے وہ سکون دے دیں جو میں کھو بیٹھی ہوں۔۔۔ مجھے صبر دے دیں ۔۔ اور صبر اتنی جلدی تھوڑی نا آ جاتا ہے ۔ صبر آتے آتے بھی عرصہ لگتا ہے اسے بھی آ گیا تھا۔۔ اس صبر میں سکون بھی تھا۔۔
گیم کھیلتے کھیلتے وہ ماضی کی یادوں کی ان گنت کھڑکیوں کو دھکیلتے،اندر جھانکتے آگے بڑھتی جا رہی تھی
ایک دم وہ حال میں آئی۔۔ یہ کیا لیول مکمل ہونے کے قریب تھا۔۔۔ خوشگوار انداز میں وہ بیڈ پر بیٹھے بیٹھے اچھلی تھی۔۔۔ یاہو۔۔۔۔۔ ہو ہی گیا آخر۔۔۔
"سنو کبھی جو تمہیں تمہاری محبت مسلسل بےسکون کرنے لگےتو سکون سے اسکا سودا کرنے میں دیر مت کرنا"