افسانہ : مرد محافظ

تاریخ شائع 04-06-2021, تصنیف کردہ : فاریہ علی (Fariya)
درجہ بندی:

مرد محافظ, مرد محافظ. مرد محافظ

مرد محافظ 

ازقلم :فاریہ علی 

 میرا دل میری زندگی سے بھرتا جا رہا ہے جی چاہتا ہے معذرت کہ ڈالو ساری پریشانیوں کو اور سانسوں کو خدا حافظ کہہ کر رخ موڑ لو اس دنیا سے میں ٹوٹ سا جاتا ہوں اکثر مستقل سفر کرتے کرتے روح میری تھک جاتی ہے نہ کہ پیر نہ جانے کیوں مجھ سے ذمہ داریاں بڑھا دی جاتی ہیں فقط اتنا کہہ دے کہ لڑکا ہے شاید میرا معاشرہ مجھ سے زیادہ امیدیں وابستہ کر بیٹھا ہے میرا معاشرہ یہ بھولتا جا رہا ہے کہ میری بھی زندگی ہے میں بھی چلتا پھرتا انسان ہوں میری بھی خواہشات ہیں جن کو تکمیل تک پہنچانا میرا کام ہے میرے کندھوں پر پڑنے والی ذمہ داریاں خواہشات سے منہ پھیرنے پر مجبور کر دیتی ہیں کی افغان شرح سی سینے میں باقی رہ جاتی ہے جن کی تاثیر وقت  با وقت  کم ہوتی چلی جاتی ہے ذمہ داریاں اس قدر بڑھتی بڑھتی چلی جاتی ہیں کہ سانس لینا تک دشوار ہو جاتا ہے پھر وقت جس کو لوگ وقت رفاقت کہتے ہیں پھر وہ رفاقت بھی رفاقت نہیں رہتا مجھے بھی احساس ہے ایسا کچھ کر جاؤ جس نے ماں باپ فخر سے کہہ سکے بیٹا ہے ہمارا مگر یہ معاشرہ اکثر ہم لڑکوں کو ہی برا کہتا ہے یوں سمجھ لیجئے جیسے ہر برائی کے پیچھے ہمارا ہاتھ ہو صرف اگر ایک مرد برا ہو تو سب مردوں کو ان میں شمار کیا جاتا ہے اور سب سے پہلے بنت حوا کے منہ سے سننے کو ملتا ہے  کے سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں جب کہ مجھے یہ چیز آج تک سمجھ نہ آ سکی کے سب مرد کیسے ایک جیسے ہو سکتے ہیں جب کہ بنت حوا کی نظر میں اس کا بھائی اس کا باپ اس کا بیٹا دنیا کے سب سے اچھے مرد ہیں جب کہ ہم ہی عورت کی عزت کو تحفظ دیتے ہیں ہم ہی عورت کو ایک مضبوط دیوار کی طرح سہارا دیتے ہیں ہم اپنی بیٹی سے اس قدر محبت کرتے ہیں اور پھر ہمارا جگر حوصلہ اور اعتماد کی حد دیکھو کسی دوسرے مرد کے ہاتھ میں تین بول بول کے ہاتھ تھما دیتے ہیں پھر معاشرہ کیوں نہیں واقف ہمارے احساسات سے جذبات سے اور کیوں کہا جاتا ہے کے سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں ایسا نہیں ہے مگر معذرت کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا اگر ایک مرد برا ہے تو لازم نہیں سب مرد برے ہو جیسے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ویسے ہی ہم مرد برابر نہیں ہوتے ہاں یہ حقیقت ہے ہم مردوں کو مرد ہونے پر تھوڑا غرور ضرور ہوتا ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ کسی کی عزت کو پیروں تلے روند ڈالیں اگر میں اپنی بیٹی کو تحفظ دیتا ہوں تو میں دوسروں کی بیٹیوں کو بھی تحفظ دونگا اس میں میری پرورش یہ بتائیں کہ مجھے کس ملکہ نے پالا ہے  میری پرورش کیسی ملکہ نے کی ہے  مجھے فخر ہے اپنے مرد ہونے پر مگر خدارا معاشرے والوں سے التجا ہے کہ مجھے بھی انسان سمجھا جائے میرے احساسات اور جذبات کو سمجھ جائے شکریہ


تعارف : فاریہ علی

 سفر زندگی آسان نہیں ہے لوگوں کے دیے ہوئے دکھ درد تکلیف حد سے تجاوز کر جائے تو انوکھی صورت اختیار کر جاتے ہیں اور پھر اختیار آپ کے پاس ہیں اس کو طاقت بنا لیں اور پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر لوگوں کے سامنے امٹ کرائیں یا پھر آپ  ہتھیار ڈال دے زندگی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں میرا نام فاریہ علی ہے 2002میں سیال  راجپوت گھرانے میں آنکھ کھولی قدر مطلق کا احسان کے اسلامی گھر آنے میں اس روح ازل کو بھیجا لکھنے کا شوق تو شروع سے ہی تھا کچھ کرم اپنوں نے اور لوگوں نے کیا کہ اس نے باقاعدگی سے ایک صورت اختیار کرلی 2017 سے لکھنے کا آغاز کیا بس صحیح انسان کی تلاش تھی جو میرے ہنر کو پہچان کر اس چیز کو عملی جامہ پہنائے.

متعلقہ اشاعت


افسانہ

اس تحریر کے بارے میں اپنی رائے نیچے کمنٹ باکس میں لکھیں