تاریخ شائع 12-08-2021, تصنیف کردہ : شیخ ہابیلشیخ ہابیل (SheikhHabeel)
درجہ بندی:
امجد اور نمرہ ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔ اور ہر کسی کو ان کی محبت کے بارے میں پتا تھا۔ امجد کچھ دنوں سے نوٹ کررہا تھا کہ نمرہ اس کے ساتھ سہی طرح سے بات نہیں کر رہی۔
ایک دن امجد نے نمرہ کو کال کی اور کہا کہ چلو کسی ریسٹورنٹ میں چاۓ پینے چلتے ہیں دوسری طرف سے نمرہ نے کہا کہ اسے آج گھر پر بہت کام ہیں اس لیے وہ نہیں آسکتی، امجد نے کہا کوٸ بات نہیں جس دن تم فارغ ہوگی اس دن چلیں گے یہ کہہ کر امجد نے فون کٹ کردیا اور امجد اکیلا ہی ریسٹورنٹ میں چاۓ پینے چلا گیا۔ امجد اپنی چاۓ کا انتظار کررہا تھا کہ اچانک اس کی نظر نمرہ پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ نمرہ کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھی ہے اور بڑے ہی خوشگوار موڈ میں ہے۔ امجد اپنی جگہ سے اٹھ کر نمرہ کے پاس گیا، نمرہ اسے اپنے سامنے دیکھ کر گھبرا گٸ۔
امجد غصے سے: تم یہاں کیا کر رہی ہو تم نے تو مجھے کہا تھا کہ تمھیں گھر پر بہت ہیں اور یہ لڑکا کون ہے؟
نمرہ: امجد آرام سے بات کرو سب لوگ یہاں دیکھ رہے ہیں۔
امجد: لوگ دیکھ رہے ہیں تو انہیں دیکھنے دو اور تم مجھے بتاٶ کہ یہ لڑکا کون ہے؟
نمرہ اسے باربار آرام سے بات کرنے کیلیے کہتی رہی لیکن امجد کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا۔
آخر نمرہ کو بھی غصہ آگیا اور اس نے امجد سے کہا کہ اس لڑکے نام کاشف ہے اور میں اس سے پیار کرتی ہوں میں کافی دنوں سے تمہیں یہ بتانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن میری ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن اب تم کان کھول کر سن لو کہ میں تم سے پیار نہیں کرتی اور اب تم بھی مجھے بھول جاٶ اور آٸیندہ کبھی مجھے کال مت کرنا۔ امجد نے جب یہ سنا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرہ سا چھانے لگا امجد کا دل بالکل ٹوٹ گیا تھا۔
امجد کو نمرہ کا غم کھاۓ جا رہا تھا۔ لیکن اسے نمرہ سے نفرت سی بھی ہوگٸ تھی جو بھی اس سے نمرہ کے بارے میں پوچھتا تو وہ فوراً غصہ ہوجاتا اور کہتا وہ ایک دھوکے باز لڑکی ہے میرے سامنے اس دھوکے باز کا نام مت لو۔
دن یونہی گزرتے رہے اور امجد بھی نمرہ کو بھول گیا کیونکہ اسے بھی کسی اور لڑکی سے محبت ہوگٸ تھی۔
ایک دن امجد کے بچپن کا دوست فرقان بہت عرصے بعد امریکا سے پاکستان آیا۔ اس نے امجد کو کال کی اور اسی ہوٹل پر بلایا جہاں وہ اکثر چاۓ پیا کرتے تھے۔
جب امجد اس ہوٹل پر پہنچا تو فرقان پہلے سے ہی وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ امجد فرقان سے گلے ملا اور وہ دونوں بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کرنے لگے، باتوں باتوں میں فرقان نے امجد سے نمرہ کے بارے میں پوچھا نمرہ کا نام سن اسے غصہ آگیا اور اس نے فرقان سے کہا: یار تو اس دھوکےباز کا میرے سامنے نام مت لے۔
فرقان نے پوچھا کیوں کیا ہوا؟ تو امجد نے اس پوری بات تفصیل سے بتادی اور یہ بھی بتایا کہ وہ اب نمرہ کو بھول چکا ہے اور اس کے دل میں اب کوٸ اور لڑکی ہے۔
فرقان یہ سن کر زور زور سے ہنسنے لگا۔ امجد کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا کہ اس کا سب سے اچھا دوست اس کی حالت پر ہنس رہا ہے اس نے غصے سے فرقان سے پوچھا کہ میرے ساتھ اتنا برا ہوا ہے اور تو میری حالت پر اداس ہونے کے بجاۓ ہنس رہا ہے۔ فرقان نے اپنی ہنسی روکتے ہوۓ کہا کہ تو نمرہ کو اس لیے دھوکےباز بول رہا ہے کہ اس کو کسی اور سے محبت ہوگٸ اور اس نے تجھے چھوڑ دیا اور اسی لیے تو پوری دنیا میں یہ کہتا پھر رہا ہے کہ نمرہ دھوکےباز ہے لیکن تو ذرا یہ سوچ کہ نمرہ نے جو تیرے ساتھ کیا وہی تونے نمرہ کے ساتھ کیا تو مجھے کہتا ہے کہ نمرہ کو کسی اور سے محبت ہوگٸ اس لیے نمرہ نے تجھے چھوڑ دیا اور تو خود یہ بھی کہتا ہے کہ اب تجھے بھی کسی اور سے محبت ہوگٸ ہے نمرہ نے کسی اور سے محبت کی تو وہ دھوکےباز اور جو تونے کسی اور سے محبت کی ہے اس کا کیا۔ امجد نے جب فرقان کی یہ بات سنی تو اسے اس بات کا احساس ہوا کہ واقعی وہ بھی اتنا ہی بڑا دھوکےباز ہے جتنی کہ نمرہ۔ وہ نمرہ کو اس لیے دھوکےباز کہتا تھا کہ نمرہ نے کسی اور سے محبت کرلی تھی لیکن امجد نے بھی کسی اور لڑکی سے محبت کرکے اپنے اور نمرہ کے درمیان کوٸ فرق نہیں چھوڑا تھا۔
اور اب اگر کوٸ اس سے نمرہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ صرف اتنا کہتا ہے کہ ہم دونوں نے ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دیا ہے اور ہم دونوں ایک جتنے ہی دھوکےباز ہیں۔