تاریخ شائع 07-06-2021, تصنیف کردہ : شیبا مرزا حنیف (sheebahanief)
درجہ بندی:
الجھن
صنف افسانچہ
از شیباحنیف گوجرانوالہ
"سمندر! تم تو میرے دوست ہو ناں؟ میرے گھر کے ساتھ ہی رہتے ہو۔ تمہیں تو سب کچھ پتہ ہی ہو گا ناں؟
میں تو بہت چھوٹی تھی۔میں تو نا سمجھ تھی مگر تم تو بہت بڑے ہو ناں۔ اعلی ظرف, بڑے دل والے, ہزاروں راز اپنے اندر لیے ہوئے۔ "
"مجھے بتاؤ ناں اس رات کیا ہوا تھا؟جب نومبر کی سردیوں میں میرا نھنا منھا وجود اپنی ماں کی آغوش کی بجائے نرم و ملائم کمبل سے لپٹا دیا گیا تھا۔ بتاؤ ناں؟ میری ماں نے مجھے اپنی آغوش سے کیسے جدا کر دیا؟"
"میرے ماں ،بابا میں تو بہت پیار تھا ناں؟چچی کہتی ہیں: میرے بابا نے میری ماں سے پسند کی شادی کی تھی اور امی تو بابا کی بہت لاڈلی تھی اور بھئی میری ماما میرے بابا کی کیوں ناں لاڈلی بیگم ہوتی؟
میری امی ہیں ہی بہت خوب صورت تھی۔ یہ لمبے لمبے بال ,بڑی بڑی آنکھیں, ستواں ناک, لمبا قد, گورا چٹا رنگ میں نے ان کی تصاویر دیکھی ہیں۔ میری امی بہت پیاری تھی اور ابھی شادی کو بھی تو صرف دو ہی تو سال ہوئے تھے اور میں نھنی منھی گود میں تھی۔ میری کتنی پیاری زندگی ہوگی ناں؟ کبھی ماما کی گود میں تو کبھی بابا کی گود میں۔ اکلوتی ناز اٹھوانے والی اور دو سالوں میں تو شادی شدہ زندگی کے چاؤ ہی نہیں ختم ہوتے ہیں۔"
"بتاؤ ناں سمندر! اس رات کیا ہوا تھا ؟کوئی جواب نہیں دیتا, مجھےکیا ہوا تھا ؟"
"جب اندھیری خاموش رات کلاشنکوف کی گن گرج سے لرز اٹھی۔
کمبل میں منہ دیے لوگ کھڑکیوں,دروازوں سے جھانکنے لگے تھے۔کچھ نے تو دروازہ کھول کے گفت و شنید بھی کرنی شروع کر دی تھی کہ یہ فائرنگ کہاں سے ہوئی ہے؟"
ایمبولینس کی آواز آنا شروع ہوگئی تھی۔ ارے پولیس… ایف آئی آر …یہ کیا… میڈیا کے لوگ اس وقت کیا ہو رہا تھا؟ میرے بابا کو ہاتھوں پاؤں سے باندھ کے پولیس کہاں لے گئی؟ اور ماما, میری ماما؟؟ مجھے چچی نے سوئے سوئے کیوں گلے سے لگا لیا۔ میری نیند خراب کر دی۔ بتا ناں سمندر اس رات کیا ہوا تھا ؟ مجھے کوئی کچھ نہیں بتاتا , کیوں مجھے کچھ نہیں بتاتا ہے ؟سمندر کا سکوت اس کی ہچکیاں، سسکیاں توڑنے لگیں جب کہ دل کی دھڑکن ماتم کدہ کہنےلگی ۔
*مجھ کو گھیرے ہے یہ الجھن
بجھتی کیسے دل کی دھڑکن
میں اس جھولی میں کھیلوں گی
جس میں گزرا میرا بچپن
چلتے چلتے رک جاتی ہے
دل سے روٹھی دل کی دھڑکن
رم جھم رم جھم برسے بادل
مجھ کو اچھا لگتا ساون
پہروں بیٹھی ہوں میں تنہا
تنہا بیٹھے جیسے دلہن
پیاسا سمندر , پیاسا دریا
آنکھ سے برسے میرے ساون*
جب کہ گہرے سمندر کا سینہ اس کے آنسوؤں سے تر ہوتا کہنے لگا۔
" اس رات تمہارے ماں بابا کی شادی کی سالگیرہ تھی بابا نے سفید سوٹ پہن رکھا تھا اور ماں تو گویا شہزادی لگ رہی تھی۔ تمہارے بابا خوشی کا اظہار کلاشنکوف کی گولیاں برسا کے کر رہے تھے کہ اچانک,…… اچانک سے تمہاری ماں گولی کی زد میں آگئی۔ " اور پھر سمندر اسے اپنے سینے سے لگائے دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
ختم شد