تاریخ شائع 03-06-2021, تصنیف کردہ : شیبا مرزا حنیف (sheebahanief)
درجہ بندی:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انتقام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صنف افسانہ ۔از شیباحنیف
"ارے میرا پیارا بیٹا !راج دلارا! دادی کی آنکھوں کا تارا! چھوٹے سےگل گوتھنے کو گود میں لیے خوشی سے نہال دادی بار بار اسے چوم رہی تھی جب کے ساتھ کھڑا سات سالہ حیدر حیرت و پریشانی کے ملے جلے احساسات لیے ترسی ہوٸی نگاہوں سے کبھی بچے اور کبھی بچے کی ماں کو دیکھ رہا تھا ۔
"کتنا پیارا ہے نا !بالکل اپنے بابا پہ گیا ہے !میرے عمر پہ! میرے شیر کا شیر بچہ!
دادی نے اپنے سینے سے لگا لیا۔ بہو رانی بھی خوش تھی اور راجہ بیٹا بھی بھاٸی بات ہی خوشی کی تھی ابھی شادی کی پہلی سالگیرہ کا کیک کاٹا نہیں تھا کہ اللہ نے بڑی سی حویلی کو نھنے سے وارث سے نواز دیا۔ حویلی میں موجود تمام افراد بات بات پہ اللہ کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے ۔
"حیدر ،حیدر جاٶ !دوڑ کے جاٶ !میرے کمرے سے زرا سرمہ اٹھا کے لاٶ! نظر کا ٹیکا تو لگا دوں کہیں نظر ہی نہ لگ جاٸے میرے چاند کو!
دادی نے چھوٹے گل گوتھنے کو چومتے ہوٸے سات سالہ حیدر سے کہا مگر آواز سن کے اس نے ان سنی کر دی اس کی نظر چھوٹے بچے پہ تھی جو اب اپنی ماں کی گود میں تھا ۔
"جاٶ جا کےسرمہ لے کے آٶ!
دادی نے زرا گھور کے کہا تو حیدر منہ بنا کے کمرے سے باہر چلا گیا کمرے سے نکلتے ہوٸے حیدر کے والد چوہدری سکندر حیات بھاٸی کو بیٹے کی مبارک باد دینے کمرے میں داخل ہو رہے تھے کہ انہوں نے لاڈ سے اپنے بچے حیدر کے سر پہ ہاتھ رکھنا چاہا مگر بچے نے انتہاٸی غصے سے ان کا ہاتھ جھٹک دیا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا سکندر حیات نے بے بسی سے سرد آہ بھری جبکہ یہ منظر دیکھ کے دادی بلند آواز سے بولی
"بہت ہی بد تمیز ہو گیا ہے! زرا بات نہیں سنتا !پتہ نہیں کس پہ چلا گیا ہے؟ گستاخ ماں کا گستاخ بیٹا :۔ اور اس طرح کے الفاظ سات سالہ بچے کے کانوں میں اکثر و بیشتر گونجتے رہتے ۔ وہ دادی کے کمرے میں گیا۔اور سرمہ لا کے زور سے اس نے دروازے کی اوٹ سےہی دادی کی طرف پھینک دیا ۔ دادی تو دہل کے رہ گٸی کہ آنکھ پھوٹتے پھوٹتے بچی جب کہ نٸی نویلی دلہن نے اپنے نوزاٸیدہ بچے کو سینے سے لگا لیا اور حیرت وغصے سے شوہر کو دیکھا کے " اگر بچے کو لگ جاتا تو۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
"بابا پیسے دیں! سکول پارٹی ہے سب بچے گھر سے کچھ نہ کچھ بنا کے لے کے جاٸیں گے :۔
پیسوں کا مطالبہ کرتے ہوٸے حیدر نے اپنے والد کو آگاہ کیا
"تو تم بھی گھر سے بنا کے کچھ لے جاٶ نا:۔
ساتھ چچا عمر حیات بیٹھے تھے انہوں نے پیار سے کہا۔
میری کون سی ماں ہے ؟جو مجھے بناکے دے گی! کبھی لنچ نہیں لے کے گیا باہر سے ہی لیتاہوں :۔
چلو کوٸی نہیں بنا لیتے ہیں :۔حیدر کو تسلی دیتے ہوٸے "چچا نے کہا میں تمہاری چچی سے کہتا ہوں وہ تمہیں کچھ بنا دیتی ہے ،
"حنإ وہ حیدر کی پارٹی ہے سکول ۔ کھانے میں کچھ بنا دو اسے!
"میں اپنے بچے سنبھالوں کے لوگوں کے ؟ میرا اپنا بچہ چھوٹا ہے میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے دوسروں کو دیکھ سکوں:-
بیگم کی بات سن کے تھوڑی ناگورای تومحسوس ہوٸی مگر پھر مصلحت کے تحت بولے ۔
"بنا دو پلیز بچہ خوش ہو جاٸے گا !
"بچے کو اس کی ماں کے پاس بھیج دیں ماں بھی خوش اور بچہ بھی خوش " بیگم نے ابرو اچکائے ۔
"یار تم نا امی کی بات سنتی ہو نا میرے بھاٸی کی! بہت دنوں سے دل میں جو دبا شکوہ تھا وہ بھی کر ڈالا۔
"بھاٸی کے ساتھ تو خیر میرا شرعًا پردہ بنتا ہے اس لیے میں ان کے سامنے کم ہی جاتی ہوں اور رہی بات امی کی تو ان سے کہو پہلی بہو نکالی تھی دوسری بھی نکال دے اور اس دفعہ بچہ ماں سے چھین کے دکھاٸے زرا:۔
اس نے اپنے نوزاٸیدہ بچے کو عمرحیات کے ہاتھوں سے لیا اور وارننگ دینے والے انداز میں کہا, اپنے بچے کو چوما اور اسے آنچل میں چھپا لیا جب کہ غصے اور ناپسدیدگی کی شدید لہر عمر حیات کے رگ و جاں میں سرایت کر گٸی دماغ کی راگیں تن گٸیں ہاتھوں کی مٹھیاں بینچ لیں دل تو چاہا کہ ابھی اسی وقت اس عورت سے بچہ چھین کے حویلی سے چلتا کرے اور سات سال پہلے کی تاریخ دہرا دے اور اس عورت کو بھی وہی سزا دے جو میرا لنچ نہ بنانے پہ امی کی فرمانبردار بہو ثابت نہ ہونے پہ بھاٸی نے بھابھی کو دی تھی اس نے غصے سے گستاخ عورت کو دیکھا سزا کا حکم سنانا چاہا مگر اس کی گود میں اس کا بیٹا سکون سے کھیل رہا تھا جب کہ وہ ساری دنیا سے بے نیاز ہو کے بچے کے لاڈ اٹھانے میں مگن تھی ۔کیا کوٸی اور عورت اس بچے کو ایسے سینے سے لگاٸے گی جیسے اس نے لگایاہوا ہے؟ کیا کوٸی اور عورت اس کے ایسے ہی ناز نخرے لاڈ اٹھاٸے گی جیسے یہ اٹھا رہی ہے ؟ اپنے ہی سوالوں کے جواب کے لیے اس نے آنکھیں موند لیں حیدر کی آوازیں سناٸی دینے لگی ۔ "بابا آپ میری ماں کہاں چھوڑ آٸے کہیں سے ڈھونڈ لاٸے نا! اس حویلی میں سب مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں! پتہ نہیں میری ماں مجھے کہاں چھوڑ کے چلی گٸی ؟ ساری رات کتے بھونکتے ہیں مجھے نیند نہیں آتی ! اور دادی کہانیاں بھی نہیں سناتی, کہتی ہے چل جلدی سو جا !سارا دن تیرے باپ کے لیے ہانڈیاں پکاٶں اور رات کو تجھے لوری دے کے سناٶں !میں خود بوڑھی جان ہوں اتنی جان نہیں ہے تم باپ بیٹے کی چاکری کروں :۔
حیدر۔ امی ۔بھاٸی کی ملی جلی آوازیں اس کے زہن میں گونجنے لگیں حوفزدہ ہو کہ اس نے آنکھیں کھول لیں سارے جسم میں کپکپی پھیل گٸی۔ کیا پھر سے وہی کروں؟ اس نے غصے سے اک نظر بیوی اور بچے پہ ڈالی ان دونوں کو نہ تو کسی کی آگ برساتی آنکھوں کی پرواہ تھی اور نہ ہی آنے والی وقت کی سختی کی ۔ وہ دونوں آپس میں ہی مصروف و مگن تھے بچے کو اپنی ماں کی گود میں ہنستے مسکراتے دیکھ کے اس کی بند مٹھیاں اور تنی راگیں ڈھیلی پڑ گٸیں ۔ میری ماں میری ماں ہے میرے بیٹے کی ماں اس کی ماں ہے اور حیدر کی ماں حیدر کی ماں ہے کوٸی بھی ماں کسی کے بچے کو وہ پیارو شفقت نہیں دے سکتی جو اس کی اپنی ماں دیتی ہے پھر چاہے وہ دادی پھوپھی خالہ ہی کیوں نہ ہو۔ کچھ سوچ کے ایک فیصلہ کر لیا گیا۔ نہیں اب نہیں میں اپنی جنت کے لیے اپنے بچے کو اس کی جنت سے جدا نہیں کرونگا ۔ پھر سے وہی کچھ نہیں۔ سوچوں کو پس پشت ڈالا نفی میں گردن ہلا دی گٸی فیصلہ واپس لے لیا گیا اس حویلی میں دوسرا حیدر نہیں ,ہتھیار پھینک دیٸے گٸے:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حیدر, حیدر, دادی نے پتنگ اڑاتےحیدر کو کہیں آوازیں دیں ۔مگروہ بھی ضد کا پکا تھا سنتا نہیں تھا ڈھیٹھ ماں کا ہے !مجال ہے جو زرا بات سن لے !حیدر کے والد والدہ کے ساتھ چارپاٸی پہ بیٹھے تو حیدر کی دادی نے راگ الاپنے شروع کر دیے ۔
" بس کر دے اماں، جان چھوڑے اس کی ،سکندر کے لہجے میں ناگواری صاف واضح تھی پہلے میری جان کھاتی رہی اسکی ماں کو چھوڑا اب کیا اس کو بھی گھر سے باہر نکال دوں؟ بے زار لہجے میں کہہ کے ماں سے دور جا بیٹھے جب کہ حیرت سے دور بیٹھے بیٹے کو دیکھ کے ماں نے سوچا محرومیاں نہ تو صدا فرمانبردار رہنے دیتی ہیں اور نہ ہی خوش مزاج۔ پھر کمی چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو ؟ غصہ ، جھنجھلاہٹ حسد ن انتقام جنم لیتی ہے ۔ جب تک یہ حویلی ویران تھی اجاڑ تھی پرسکون تھی مگر
اب جب سے یہاں چوڑیوں کی کھنک اور رات کو بچے کے رونے کی آوازیں سناٸی دیتی ہیں ۔تو اس بڑی سی حویلی کے مکینوں کا جی چاہتا ہے خود اپنے ہاتھوں سے حویلی کو آگ لگا دیں کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر بار مظلوم ہی آ کے ظالم کا گریبان پکڑے بلکہ بعض دفعہ قدرت خود انتقام لینے آتی ہے ۔ اور تب چاروں شانے چت ہونے کے سوا کوٸی چارہ نہیں ہوتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ختم شد ۔۔۔۔۔۔