غزل : کاغذ
تاریخ شائع 04-06-2021, تصنیف کردہ : فارعہ اکرم (Akram195)
درجہ بندی:
کاغذ
کہنے کو میں اک۔۔۔کاغذ ہوں جاناں
کہنے کو میں اک۔۔۔کاغذ ہوں جاناں
مگر زندگیاں میں سنوارتا ہوں
ہم راز نہیں جن کا۔۔۔درد ان کا سمیٹتا ہوں
کینچھ کے نقشے مجھ پر لوگ
آج ہواؤں میں سفر کرتے ہیں
کہنے کو میں اک۔۔۔ کاغذ ہوں جاناں
ہاتھ سے اپنے لکھ کر مجھ پہ۔۔۔داستانیں اپنی
پھر گلہ بھی مجھ سے کرتے ہیں
کہ کبھی اٹھا کر پھینک دیتے ہیں
کبھی جلا کر راکھ کرتے ہیں
کہنے کو میں اک۔۔۔کاغذ ہوں جاناں
لکڑی سے بنا وجود میرا
پھر قلم سے سیکھ کر مجھ پر
بنتا ہے کوئی پھول اور کوئی پتھر بن جاتا ہے
میں تو قائل تھا محبت بانٹنے کا
مگر پاؤں تلے روند کر مجھ کو
کیا خود کو تم نے۔۔۔اک انسان سے بےنام
کہنے کو میں اک۔۔۔کاغذ ہوں جاناں
کہنے کو میں اک۔۔۔کاغذ ہوں جاناں
متعلقہ اشاعت
اس تحریر کے بارے میں اپنی رائے نیچے کمنٹ باکس میں لکھیں