کہانی : گڑیا گھر

تاریخ شائع 09-06-2021, تصنیف کردہ : شیبامرزاحنیف (sheebahanief)
درجہ بندی:

گڑیا گھر

از شیباحنیف

مائیکروفکشن   

”ہائے اللہ ! کتنی پیاری ہے ناں۔ میں نے اسے للچاٸی نظروں سے دیکھا۔ارے واہ اس کے بال تو سنہری ہیں۔ امی ! آپ نے اس کی آنکھوں کا رنگ دیکھا ہے؟ امی کی نظریں اُس کی نظروں سے ٹکرائیں۔ میں نے تو بس اب یہی لینی ہے۔ میرا دل مچلنے لگا۔آپ نے  ہونٹ دیکھیں ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے ناں جیسے۔۔۔۔۔۔:۔“

”چپ ! چپ کر جاٶ بالکل چپ!امی نے دانت کچکچاٸے۔ یوں ندیدے نہیں بن جاتے ہیں۔ وہ غصے کا اظہار کرنے لگی۔ پہلی دفعہ دیکھی ہے کیا؟مجھے خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی۔دکان داروں کے سامنے یوں ہکلانا نہیں شروع کر دیتے ہیں۔وہ اپنی قیمت بڑھا لیتے ہیں۔ میں تمہیں رشید صاحب  کی دکان پر لے جاٶں گی۔ وہاں سے لے لینا۔" مجھے پیار سے سمجھانے لگی:۔

"مگر۔۔۔۔۔ امی … ؟" میں نے اسے حسرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”چپ کر جاؤ, بالکل چپ!" انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں لتاڑا۔ کیا تم نے شیشہ نہیں دیکھا تھا؟ 

وہ ٹوٹا ہوا تھا۔ غسل خانے  سے کس قدر بدبو آ رہی تھی۔ مہمان خانہ کیسے پھوہڑ پن سے سجایا گیا تھا۔ چھوٹا سا گھر تھا اور اس میں گاڑی تک نہیں تھی۔ ہونہہ:۔“

_____________

”امی ! رشید صاحب تو بہت اچھے ہیں۔ انہوں نے تو ہمیں مالٹے کا جوس بھی پلایا ہے۔" 

”گڑیا گھر بھی بہت اچھا ہے تمہیں پسند آٸے گا۔" انہوں نے مجھے  تسلی دی۔

"امی گھر چلیں ! امی کا تو رشید صاحب  کی دکان سے اٹھنے کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا وہ بھی تو بڑے جی دار تھے چرب زباں ہونے کے ساتھ ساتھ کبھی دہی بھلے تو کبھی فروٹ چاٹ منگوا لیتے تھے۔ امی کو گڑیا گھر بہت پسند آیا تھا مگر کھیلنا تو میں نے تھا ناں؟مجھے گڑیا نہیں پسند آٸی تھی کوٸی باربی ،روپنزل ہوتی تو میرے جی کو لبھا جاتی مگر وہاں ایلیسیہ تھی۔ کالے منہ والی ,چھوٹے بال, دبلا پتلا جسم ( ہونہہ ) دل نہیں مانا:۔

________________

 ”بڑا سا گھر ,گھر میں دو ، دو گاڑیاں( امی  نے آنکھیں پھیلائیں) باغ میں پھول اور جھولا بھی تو تھا اور باورچی خانہ بہت بڑا تھا سارے کمروں میں سنگِ مرمر لگا ہوا تھا۔"  امی رطب اللسان تھی۔

”مگر امی…؟ میں نہیں…۔“  میں نے نفی میں گردن ہلاٸی۔ ( اس کی جگہ کوٸی سینڈریلا ہوتی یا سنو واٸیٹ تو مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا مگر وہاں ایلیسیہ تھی)مجھے وہ نہیں پسند تھی۔وہ دی اے گو کی بہن تھی۔ مجھے بہن کے ساتھ بھاٸی بھی نہیں پسند تھا ۔ جس کے بھاٸی سے نہ لگے اس کی بہن سے رشتہ بنانے کا کیا فاٸدہ ؟چیز پسند نہ آٸے تو کھیلنے کا دل ہی نہیں کرتا ہے۔"

____________ 

نرم و ملاٸم صوفے, شاندار تراش خراش کے پردے ,

 بڑے بڑے برقی قمقمے, دکان دار کے اعلی مرتبہ ہونے کامنہ بولتا ثبوت تھےاور جب گڑیا گھر سامنے رکھا گیا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گٸیں جبکہ  امی بھی قدرے مطمئن نظر آٸیں۔

میں نے امی کو دیکھا۔( ہم دونوں کی مسکراتی نگاہوں کا تبادلہ ہوا۔)

"شکر خدایا" میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

جدید طرز کا بڑا سا گڑیا گھر تھا۔ میں نے ابو کو دیکھا

"ہاں ٹھیک ہے۔ قیمت لگا لیتے ہیں۔"میری بے چینی دیکھتے ہوٸے وہ بولے۔

"شکر خدایا! میں آج بہت خوش تھا۔

*فروزن کا گڑیا گھر۔" میرے منہ سے نکلا۔

 merry come, merry come

میری ایلسہ کا گڑیا گھر اور ایلسہ تو مجھے اینا سے بھی زیادہ پسند تھی جبکہ  ایلسہ کو دیکھ کر  امی بے حد خوش ہوٸی اور میں اس کے وجود کو  اپنے ہاتھوں میں محسوس کرنے لگا خوشی سے میری بانچھیں کھلنے لگی۔

"امی آپ کو  کیسی لگی؟" میں نے پوچھا۔

"ہاں  ٹھیک ہے۔" انہیں ایلسہ پسند آٸی ۔

میں نے ابو کو دیکھا؟

 "ہاں ٹھیک ہے, قیمت لگا لیتے ہیں۔" ابو نے مجھے تسلی دی۔

 _______________

"مگر۔۔۔۔ امی ؟ابو۔۔۔۔ ؟یہ کیا بات ہوٸی۔" میں نے سر پکڑا۔

”دکان دار کے مزاج ہی نہیں مل رہے تھے۔ اس نے سیدھے منہ بیٹھنے تک کو نہیں کہا۔  رشید نے دہی بھلے جوس پلایا تھا اور اس نے پانی کا گھونٹ تک نہیں پوچھا۔ ایسے بدمزاج ہیں؟ان میں بہت اکڑ ہیں؟(بڑے آٸے۔ دفع) ہم نے نہیں لینی,  رکھیں اپنے پاس (ایلسہ) تم میرے ساتھ رشید کی دکان پہ چلنا! بریانی کے ساتھ ساتھ پیپسی بھی پلاٸے گااور اس سے ایلیسیہ کی بات بھی کر لیں گے۔ گیراج میں گاڑیاں بھی تو کھڑی تھی۔ وہ بھی دو ، دو…" 

 ختم شد

متعلقہ اشاعت


کہانی

اس تحریر کے بارے میں اپنی رائے نیچے کمنٹ باکس میں لکھیں