تاریخ شائع 24-09-2021, تصنیف کردہ : شیخ ہابیلشیخ ہابیل (SheikhHabeel)
درجہ بندی:
دوپہر کو تقریباً 1:30 بجے والد صاحب کا فون آیا کہ آج تمہارا پیپر تھا کیا؟ میں نے کہا نہیں. تو والد صاحب نے کہا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ آج B.com پارٹ 1 والوں کا پیپر تھا. جب میں نے یہ سنا تو میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گٸ کیونکہ کالج میں جاتا نہیں تھا اس لیے پیپر کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا. میں سوچ رہا تھا کہ آج اگر واقعی میرا پیپر تھا تو پھر آج میری خیر نہیں ہے. ابو نے فون پر بہت سناٸ اور غصے میں فون کٹ کردیا.
شام کو جب ابو گھر آۓ تو آتے ہی مجھ پر برس پڑے اور مجھے خوب سناٸ امی نے بھی ابو کا خوب ساتھ دیا. ابو نے انتہاٸ غصے میں کہا کہ کل صبح 7 بجے کالج چلے جانا.
اگلے دن میں تقریباً صبح 7 بجے کالج چلا گیا کیونکہ میں ذرا سی بھی دیر نہیں کرنا چاہتا تھا. میرے پاس سلپ نہیں تھی اور اُس کے بغیر میں پیپر میں نہیں بیٹھ سکتا تھا. خیر میں کلرک آفس میں گیا سلپ لینے، وہاں جاکر میں نے کہا کہ مجھے اپنی امتحانی سلپ لینی ہے تو وہاں پر موجود کلرک نے کہا کہ پیپر تو کل سے شروع ہوگۓ تھے اور تم آج سلپ لینے آۓ ہو مطلب تم نے کل کا پیپر نہیں دیا، اس کلرک نے بھی مجھے خوب سناٸ اور مجھے بہت طنزیہ جملات کہے. میں نے اس کلرک سے جھوٹ کہہ دیا کہ میں کچھ دنوں سے شہر سے باہر تھا اس لیے مجھے پتا نہ چل سکا کہ میرے پیپر شروع ہوگۓ ہیں. کلرک نے میری یہ بات سنی تو مجھے کہا کہ جس کلرک کے پاس سلپ ہے وہ اسٹاف روم میں ہے تم وہاں چلے جاٶ. میں بہت خوش ہوا کہ چلو اِس کلرک سے تو جان چھوٹی لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ ابھی مجھے اور بھی بہت سے طنزیہ جملات کا سامنا کرنا تھا.
میں نے اسٹاف روم میں جاکر اس کلرک کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہ پرنسپل آفس میں ہیں، میں پرنسپل آفس کی طرف گیا. میں نے آفس کے باہر سے پوچھا کہ، سر کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ اندر سے جواب آیا کہ جی آجاٸیں. میں نے اندر جاکر کہا کہ سر میں فلاں کلرک سے ملنا چاہتا ہوں. پرنسپل صاحب نے کہا کہ وہ تمہارے آنے سے ایک، دو منٹ پہلے ہی یہاں سے گۓ ہیں. میں شکریہ سر کہہ کر جانے ہی والا تھا کہ اتنے میں پرنسپل صاحب نے کہا کہ آپ کو ان سے کیا کام ہے؟ میں نے سوچا کہ اب پھر سے مجھے بہت ڈانٹ سننی پڑیگی. خیر میں نے ڈرتے ڈرتے پرسنپل صاحب کو بتایا کہ مجھے ان سے سلپ لینی ہے. پرنسپل صاحب نے کہا کہ آپ سلپ آج لینے آۓ ہیں اور پیپر تو کل سے ہی شروع ہوگۓ ہیں. میں نے پرنسپل صاحب سے بھی وہی جھوٹ بولا جو کلرک آفس میں کلرک سے بولا تھا کہ میں شہر سے باہر تھا اس وجہ سے یہ مسٸلہ ہوگیا. پرنسپل صاحب نے بھی غصے میں بہت باتیں سناٸ لیکن پھر وجہ جان کر ان کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ آپ اسٹاف روم میں چلیں جاٸیں ہوسکتا ہے وہ کلرک وہاں گۓ ہوں.
میں نے دوبارہ اسٹاف روم میں جاکر اس کلرک کا پوچھا تو وہاں موجود ایک ٹیچر نے مجھ سے پوچھا کہ آپ ان کو کیوں ڈھونڈ رہے ہیں. پھر میری چھٹی حس نے مجھے کہا کہ تم ایک بار پھر ڈانٹ سننے کے لیے تیار ہوجاٶ. نہ چاہتے ہوۓ بھی مجھے بتانا پڑا کہ میں سلپ لینے آیا ہوں یہ سنتے ہی وہ ٹیچر ہنسے اور کہا کہ تم کتنے لاپرواہ ہو کہ تمہارے پیپر شروع ہوچکے ہیں اور تم نے ابھی تک سلپ ہی نہیں لی، مجھے بہت غصہ آرہا تھا کہ جس سے بھی مل رہا ہوں وہ مجھ پر صرف طنز کررہا ہے، لیکن میں سواۓ خاموش رہنے کہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا. خیر میں نے ان ٹیچر سے کہا کہ سر پلیز مجھے بتاٸیں کہ وہ کلرک کہاں ہیں. تو انہوں کہا کہ آپ باہر دیکھ لیں وہ یہیں کہیں ہونگے، یہ سنتے ہی میں فوراً اسٹاف روم سے باہر نکل گیا کیونکہ اگر میں وہاں تھوڑی دیر اور کھڑا رہتا تو طنزیہ جملات سن کر میرا جنازہ نکل جاتا.
میں اسٹاف روم سے باہر نکل کر اس کلرک کو ڈھونڈ رہا تھا. اسٹاف روم کے باہر ہی میں نے ایک لڑکے کو بیٹھا ہوا دیکھا تو سوچا کہ اِسی سے اس کلرک کے بارے میں پوچھتا ہوں، میں اس کے پاس گیا اور اسے کلرک کا نام بتا کر کہا کہ مجھے ان سے ملنا ہے، اس نے تھوڑی ہی دور بیٹھے ہوۓ ایک آدمی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہی وہ کلرک ہے، میں اس لڑکے کا شکریہ ادا کر کے اس کلرک کی طرف چلاگیا.
میں اس کلرک کے پاس گیا وہ اپنے موبائل میں مصروف تھے میں نے ان کو جا کر سلام کیا اور کہا کہ سر مجھے سلپ لینی ہے، انہوں نے موبائل سے نظر اٹھاۓ بغیر کہا کونسی سلپ، میں نے کہا کہ سر سلپ تو ایک ہی ہوتی ہے نہ امتحانی سلپ، کلرک نے موبائل سے نظر اٹھاٸ اور مجھے گھور کر دیکھا اور کہا میرا مطلب ہے اس وقت کونسی سلپ لینے آۓ ہو، میں نے کہا سر B.com پارٹ 1 کی سلپ، کلرک نے حیران ہوتے ہوۓ کہا کہ ان کا تو کل پہلا پیپر تھا. میں نے کہا جی سر لیکن میں شہر سے باہر تھا اس لیے مجھے پیپر کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا. کلرک صاحب غصے میں بولے کہ بھاٸ تو شہر سے باہر تھا ملک سے باہر تھوڑی تھا جو تجھے پتا نہیں چلا کہ تیرے پیپر کب ہیں. میں نے کہا کہ سر میں ایک پیپر میں تو رہ گیا ہوں میں نہیں چاہتا کہ باقی پیپر میں بھی رہ جاٶں اس لیے پلیز مجھے سلپ دے دیں. کلرک نے کہا کہ تھوڑی دیر انتظار کرو میں سلپ لے کر آتا ہوں.
تھوڑی دیر بعد کلرک صاحب سلپ کا پورا بنڈل لے کر آۓ اور مجھے دیتے ہوۓ کہا کہ یہ سب بھی تمہاری طرح لاپرواہ اور اپنے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والے لڑکے ہیں، ابھی بھی بہت سے لڑکے ایسے ہیں جو ابھی تک سلپ لینے نہیں آۓ پتا نہیں ان لڑکوں کا کیا ہوگا، میں نے دل میں سوچا کہ اچھا ہوا یہ لوگ سلپ لینے نہیں آۓ ورنہ یہاں آکر ان کی کیا حالت ہوگی یہ مجھ سے بہتر کوٸ نہیں سمجھ سکتا. کلرک نے کہا تم اس بنڈل میں سے اپنی سلپ ڈھونڈ لو. میں اس بنڈل کو چیک کرنے لگ گیا میں نے اس بنڈل کو دو دفعہ چیک کیا لیکن مجھے میری سلپ نہیں ملی، میں نے کلرک سے کہا کہ سر اس میں تو میری سلپ ہے ہی نہیں، کلرک صاحب جو دوبارہ موبائل میں مصروف ہوگۓ تھے موبائل سے نظر ہٹاۓ بغیر کہا ٹھیک سے چیک کرو اِسی میں ہوگی. میں نے ایک بار پھر وہ بنڈل چیک کیا لیکن مجھے سلپ نہیں ملی. میں نے دوبارہ کلرک سے کہا سر میں تین دفعہ چیک کرچکا ہوں اِس میں میری سلپ نہیں ہے. کلرک صاحب چڑتے ہوۓ بولے تم نے داخلہ فارم جمع کرایا تھا؟ میں نے کہا جی سر جمع کرایا تھا. کلرک صاحب بولے اور امتحانی فارم؟ میں یہ سوال سن کر چکرایا کیونکہ میں نے تو امتحانی فارم جمع کرایا ہی نہیں تھا، کلرک نے مجھے جھنجوڑا اور کہا کس سوچ میں پڑگۓ جواب دو امتحانی فارم جمع کرایا تھا؟ میں نے ڈرتے ہوۓ کہا سر وہ تو جمع نہیں کرایا، کلرک صاحب ایک بار پھر غصہ ہوگۓ اور بولے بیوقوف تم کو پتا نہیں ہے کہ امتحانی فارم جمع کرواۓ بغیر امتحان نہیں دے سکتے، میں نے کہا سر لیکن امتحانی فارم جمع ہونے کی میں نے تو کوٸ خبر سنی ہی نہیں، کلرک صاحب جو پہلے سے ہی غصے میں تھے یہ بات سن کر بولے بیوقوف امتحانی فارم ایک سال پہلے جمع ہوگۓ تھے، میں نے حیران ہوتے ہوۓ کہا ایک سال پہلے لیکن سر میں نے تو داخلہ فارم ایک سال پہلے جمع کرایا تھا، کلرک صاحب بولے ارے یہ تمہارے پیپر نہیں ہے یہ ان کے پیپر ہو رہے ہیں جنہوں نے” 2019 میں B.com میں داخلہ لیا تھا ان کے پیپر 2020 میں ہونے تھے لیکن کورونا واٸرس کی وجہ سے نہ ہوسکے اس لیے اب ہورہے ہیں. میں نے یہ سنا تو مجھے بہت غصہ آیا کہ اس کورونا کی وجہ سے میں صبح سے طنز پہ طنز سن رہا ہوں یہی سوچتے ہوۓ میں بے ساختہ بول اٹھا ”کورونا، تیرا بیڑا غرق ہو“