تاریخ شائع 07-05-2022, تصنیف کردہ : علی سبیل (PR_Ali_Sabeel)
درجہ بندی:
شعور سے آشنائی
از قلم : سبیل
اوشو لکھتے ہے جہاں علم و شعور نہیں وہاں شعور بیدار کرنا آسان ہے جیسے کوئی برتن بلکل خالی ہو تو ہم آپنی مرضی سے اس میں صاف و شفاف پانی ڈال سکتے ہے، جس برتن میں پانی ہو وہاں اور پانی ڈالنے کی گنجائش کم رہتی ہے، حال ہی میں آیک اسٹریلیا سے آیا ہوا سیاح کراچی میں چند لاشعور بچوں کی لاشعوری حرکت سے تنگ اکر اصل قیمت سے ذیادہ پیسے دیکر وہاں سے نکل پڑا یہی نہیں اس نے باقاعدہ ویڈیو لگا دی کہ ان کے فراڈ سے بچ کے چلو، ساحلِ سمندر پہ یہ لاشعور بچے صبح جب گھر سے نکلتے ہے تو ذہن و خیال میں پیسے ہی پیسے ہوتے ہے ایسے میں آیک غیر ملکی کو دیکھ کر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہے، بقولِ اوشو یہ وہ برتن ہے جو بلکل خالی ہے، ہم میں آگر شعور ہے تو ہم پہ لازم ہے کہ ان کو بیدار کرئیں، ان کو اگنور کرنے سے نسل در نسل پہ سلسلہ چلتا رہے گا، جب ہم کسی صوفی بزرگ کی درگاہ پہ فاتحہ پڑھنے جاتے ہے تو باہر جوتے رکھنے کے پیسے وصول کرتے ہے، اندر ہاتھوں میں ذبردستی دھاگے باندھ کے پیسے وصول کرتے ہے، یا کوئی مائی گلے میں ہار ڈال کے پیسوں کا مطالبہ کرتی ہے، آگر آپ لاہور و ملتان کے رہائشی ہے تو آپ بہتر سمجھ سکتے ہے، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج کا انسان آپنا سب کچھ پیسے کمانے کے لیے وقف کر رہا ہے جو کہ غلط نہیں ہے، البتہ غلطی اس چیز میں ہے کہ ہم لوگ ناجائز طریقوں کا استعمال کررہے ہے۔
لوک اسٹریلین شہری ہے اور آپنی ہر ویڈیو میں پاکستان کی تعریف کرتا نہیں تھکتا اس کی ویڈیوز میں ہم دیکھتے ہے کہ وہ ہمیشہ ہر چھوٹے بڑے کو ٹپ ضرور دیتا ہے اور اخلاق میں بھی بہترین ہے میں بہت پہلے سے ان کی ویڈیوز دیکھتا آرہا ہوں۔
مصنف سپینسر جانس کہتے ہے " آپنی ذات کی دیکھ بھال کرنا پسندیدہ کھانا کھانے کے برابر ہے"
آگر ہم خود کو بدلے تو دیکھا دیکھی ذمانہ بدل جائے، مولائے روم کہتے ہے "کل تک میں چالاک تھا دنیا بدلنے چلا تھا آج میں عقلمند ہوں خود کو بدل رہا ہوں"
لاشعوری حرکت بچوں میں آیک ایسا احساس پیدا کرتا ہے جو تاحال ان کے قلب و ذہن کے ساتھ منسلک ہوجاتا ہے، ہمارے پیارے پاکستان میں سائکولوجی پہ کون غور کرئیں؟ یہاں تو لوگ آتنے مزہبی ہے کہ پرندوں کو قید سے آذاد کرنے کے پیسے دیتے ہے، یعنی آپ نے دیکھا ہوگا آیک شخص آیک جال میں پرندے پنڈ اور کسی پارک سے پکڑ لے آتا ہے اور کسی انجان چوک میں کھڑا ہوجاتا ہے جنت کے طلب گار بڑے فخر سے اس انجان جگے پہ ان بے ذبان پرندوں کو آذاد کرتے ہے میں نے خود دیکھا اک پرندے کو جونہی وہ آذاد ہوا شش و پنج میں مبتلا ہوا اور بلاخر خوف کے عالم میں اک دیوار کے ساتھ چھپک گیا۔
کیا ہی بہتر ہوتا اس پرندے پکڑنے والے کو کوئی کام دلاتے یا اس کام سے بعض لیے آتے، ہم میں سے ہر کوئی تبدیلی چاہتے ہے پر ہم خود اس پہ عمل پیرا نہیں ہوتے۔
ہم نے اول تو مزہب کو کاروبار بنایا
پھر پیسے کو خدا، ہم میں سے ہر کوئی منافق ہے آپنے آپنے مسلک و مزہب کے لیے آگے اتے ہے اسلام کے لیے نہیں، اسلام فیاضی کا دین ہے، رحم، محبت، مدد اور مسکراہٹ کا نام ہے۔
آگر ہمارے اردگرد لاشعوری حرکت ہو تو اس شخص کی ذمہ داری ہے جسے انتظامیہ کہا جاتا ہے۔
بہت سارے آچھے لوگ بھی ہے، جن کی تربیت بہترین ہوئی ہے، جن میں شعور ہے، اور کچھ تو خلائی مخلوق ہے ان کو دیکھ کے لگتا ہے کہ یہ وہی ہونگے جن کے بارے میں قرآن میں درج ہے "بہرے ہے گونگے ہے اندھے ہے" احساس سے خالی شخص کے سامنے جتنی مرضی چاہو فریاد کروں وہ بہرہ ہے، کسی ضرورت مند کی مدد نہ کرنے والا یقیناً اندھا ہے اور جو حق کے لیے نہ بولے گونگا ہے۔